عالمی یوم مزدور 2019 اِعلامیہ

اِمدار نہیں ۔ حق دو!۔

ساتھیو،  لال سلام

سب سے پہلے ہم عالمی یومِ مزدور پر شکاگو کے شہداء کو لال سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1886میں ا پنی جانوں کے نذرانے دے کر مزدوروں کے اوقاتِ کار اور حالاتِ کار کو انسانی اور جمہوری بنیادوں پر بنانے کے لئے جدو جہد کی بنیاد رکھی۔  اِس جدوجہد کو آگے بڑھا کر ایک عالمی شکل دینے کے لئے اور شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں دوسری سوشلسٹ  انٹرنیشنل (جو کہ سوشلسٹ پارٹیوں کی عالمی تنظیم تھی) نے 1891 ء  میں ” انٹرنیشنل ورکرز ڈے” کا اجراء کیا،  اور پوری دنیا میں مزدوروں کو حقوق دلا نے کی جدوجہد کی، اور محنت کش طبقات کے نمائندہ انقلابات کئے۔ اِسی سوشلسٹ انٹر نیشنل نے 1857 ء اور 1908 ء میں امریکہ میں گارمنٹ فیکٹریوں کی خواتین ورکرز کے ووٹ کے حق اور مزدور جدوجہد کے تسلسل کو آگے بڑھانے کے لئے  “انٹرنیشنل ورکنگ ویمن ڈے” کا  اجراء کیا، اور صنفی انقلابات بھی لائے۔ ہماری نظر میں یکم مئی اور آٹھ مارچ دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آج دُنیا کے پاس جو بھی تھوڑے بہت مزدور اور صنفی حقوق ہیں، اُن کے لئے عالمی تحریکیں بنانے میں عالمی سوشلسٹ تحریکوں کا مرکز ی کردار رہا ہے۔ آج ہم بھی اُسی کردار کو ادا کرنے کے لئے ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی شکل میں صف آرا ہیں۔

 آج کے دن ہم عالمی مزدور اور ترقی پسند تحریک کو، اور پاکستان کے اُن تمام ترقی پسند مزدور رہنماؤں کی جدوجہد کو بھی سلام پیش کرتے ہیں، جو اَب ہم میں نہیں رہے، خاص طور پرکامریڈ مرزا محمد برا ہیم کو۔ ہم اُ ن تمام محنت کش خواتین رہنماؤں کی جدو جہد کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جو ریاستی تشدد کے باوجود کئی دہائیوں سے  حقو ق کے لئے لڑ رہی ہیں، خاص طور پر ٹیچرز، ہیلتھ ورکرز، ینگ نرسز، ینگ ڈاکٹرز،  اور کسان عورتیں۔

ہم پاکستان کی تمام محنت کش خواتین کو بھی لال سلام پیش کرتے ہیں، کہ اُنہی کے دم سے گھر، شہر اور یہ سماج چلتا ہے۔ اگر عورتیں ایک ہفتہ بھی گھرو باہر کے کام سے ہڑتال پر چلی جائیں تو گھروں، دفتروں، سکولوں، ہسپتالوں، اور سڑکوں پر کیڑے پڑ جائیں؛بچے بلک بلک کر ہلکان ہوجائیں؛ خاندان کے افراد بھوک سے بلبلا اُٹھیں؛ کوئی بھی مرد ملازمت پر نہ جا سکے؛ بیمار وں اور بزرگوں کی جانیں چلی جائیں؛ اور زندگی معطل ہو جائے! ۔

تو سب محنت کش بہنوں کو لال سلام!۔

ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اِس مئی ڈے پرنہ صرف محنت کش طبقے کو درپیش استحصال اور جبر کے خاتمے تک جدو جہد کا اِعادہ کرتی ہے بلکہ محنت کش عورتوں کو صنفی بنیاد پر پدر شاہی جبر کے خاتمے کا بھی اِعادہ کرتی  ہے۔ ہم محنت کش اور محنت کار عورتوں کی تما م تحریکوں سے یکجہتی کرتے ہیں۔ ہماری سب مقامی تنظیمیں ہر جگہ ترقی پسند ٹریڈ یونین تحریکوں کی طرف سے مئی ڈ ے کے پروگراموں میں بھر پور شرکت کریں گی۔ اور ساتھ ہی ساتھ مزدور عورت کو درپیش صنفی اور طبقاتی مسائل کو اُجاگر کرنے، اور اُن تک ترقی پسند سیاست کا پیغام پہنچانے کے لئے مخصوص پروگراموں کا اہتمام بھی کریں گی۔

   ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پورا کا پورا نظام ہی محنت کش مخالف ہے اور استحصال پر مبنی ہے۔ یہ مزدور کی زندگی کے گِرد نہیں بلکہ سرمائے اورمنافع کے گرد گھومتا ہے،  اوراِس عمل میں عورت کو پدر شاہی، یعنی مرد کی بالا دستی کا غلام بھی بنا تا ہے۔ اِس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اِس نظام کو گرائے بغیر، اور مزدور انقلاب اور صنفی انقلاب لائے بغیر سماجی نا انصافیوں سے آزادی ممکن نہیں۔

 پاکستان میں تو محنت کش طبقے کو اب تک وہ بنیادی مزدور حقوق،جمہوری حقوق اور انسانی حقوق بھی میسر نہیں جو ایک صدی پہلے ظا لمانہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں تک میں دوسری قوموں کو مل چکے ہیں۔ یہاں تو اب بھی 15-20 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ کام کی جگہ پر صحت اور سلامتی کا کوئی تحفظ نہیں، اب بھی کارخانوں میں مزدور زندہ جل کراور کوئلے کے کانوں میں دم گھٹ کر مر تے ہیں۔ اکثر مزدوروں کی تنخوا ہ کم سے کم اُجرت ( منیمم ویج) سے کم ہے، اور کم سے کم اُجرت بھی معقول نہیں ہے جو ضروریاتِ زندگی پوری کرے۔ کیا 15,000 روپے ماہانہ تنخواہ میں چھ افراد کا خاندان جی سکتا ہے؟ جبکہ وہ بھی نہیں ملتے۔

  ہم عورتوں کو تو غیر رسمی شعبوں میں دھکیلاگیا ہے، جہاں کم سے کم اُجرت تو کیا، کوئی بھی قانون نہیں چلتا۔ ہمیں رسمی اور غیر رسمی دونوں شعبوں میں ادنیٰ ٰترین مانے جانے والے کاموں میں دھکیلا گیا ہے۔ ہماری محنت سستی ترین ہے اور معاوضہ واجبی۔ ہم عورتوں کو سب سے زیادہ محنت طلب شعبوں میں کام ملتا ہے، وہ بھی اکثر جُز وقتی۔ اکثرعوتوں کو مردوں کی نسبت اُجرت بھی کم ملتی ہے۔ کم سے کم اُجرت تو کیا، یہا ں تو عورت سے  بِلا معاوضہ فیملی لیبر لیا جاتا ہے۔ گھر لایا ہو ا غیر زرعی کام، اورپٹے پر لی گئی زمینوں پر کام اکثر عورتیں ہی خاندان کو کر کے دیتی ہیں۔ یہاں تو بھٹہ مالکان اور جاگیر دار پورے کے پورے خاندان کو غُلامی میں رکھتے ہیں اور ایڈوانس واپس نہ دے پانے کی سزا میں محنت کشوں کو ایک دوسرے کو بیچتے رہتے ہیں۔ یاد رہے،کہ اِن بیچے جانے والوں کی اکثریت محنت کش خواتین  ہے۔  اوپر سے عورت پر گھر کے کام کا پورا بوجھ….. یعنی ڈبل شفٹ…..گھر کا کام اور باہر کا کام۔ اُوپر سے گھریلو تشدد اور کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی!

تویہ ہے مزدور عورت کی صورتحال!۔

 فری مارکیٹ اِکانومی کی منافع خوری، نجکاری، ٹھیکیداری نظام، اور قانون سے بالا تر غیر رسمی شعبے میں بے انتہا استحصال نے نہ صرف محنت کش خاندان کو شدید غربت میں دھکیلا ہے، بلکہ مزدورعورت کو سستے ترین داموں اپنی محنت بیچنے پر مجبور کیا ہے۔ تعلیم و ہنرکی کمی، منڈی میں مردوں کی بالا دستی، اور پدر شاہی روایات کی وجہ سے مزدور عورت دوگنے استحصال کا شکار ہیں: ایک محنت کش  طبقے کی وجہ سے اور دوسرا اپنی صنف کی وجہ سے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اِس صورتحال میں ریاست نے محنت کش طبقے کی طرف اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی ہے اور سرمایہ داروں کا ہی ساتھ دیا۔ ہم ایسی جمہوریت کونہیں مانتے جس میں مزدور عوام بھوکی ہو، اُنہیں استحصال کا سامنا ہو، اور عورت دوہرے جبر کا شکار ہو۔ ہم پاکستان کی وفاقی اورصوبائی پارلیمانی اِداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نہ صرف وہ ٹیکس جو بلوں، فیسوں اور سیلز ٹیکس کے ذریعے ا کھٹا کیاجاتاہے (جو فوجی اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے)،اُس میں محنت کش طبقے کی تعلیم، علاج اور بہبود پر عالمی معیار کے مطابق خرچہ بڑھائیں۔ مزدور کے حالاتِ کار اور اوقاتِ کار کو عالمی طور پر مروجہ” کور لیبراسٹینڈرڈز “کے مطابق بنائیں۔ یاد رہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اب لیبر لاء  اورلیبر ویلفیئر کے سبجیکٹ وفاقی حکومت سے صوبائی حکومتوں کو منتقل ہو چکے ہیں، لیکن وفاق کی معاشی اورمالی پالیسیاں، اور نج کا ریاں محنت کش طبقے کی زندگیوں کو معطل کر رہی ہیں۔

ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کی غریب محنت کش طبقے کو دھوکہ دینے والے “احساس”  یا “بینظیر انکم سپورٹ” جیسے منصوبوں کے بجائے معیشت کو ٹھوس مزدور دوست اورپیداواری بنیادوں پراستوارکیاجائے۔ محنت کش طبقے کو ”امدادی منصوبوں ” کے بجائے، کم سے کم اُجرت کو نہ صرف یقینی بنایا جائے بلکہ  مینمم ویج کو لیونگ ویج  (ضرو ریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے معقول تنخواہ) بنا کر مہنگائی سے مشروط کیا جائے۔ کم سے کم اُجرت کی آئینی ضمانت دی جائے۔ کسانوں کی غربت مٹانے کے لیے جاگیروں / اراضیوں کو زرعی اصلاحات کرکے کسانوں میں بلا تفریق جنس تقسیم اورمساوی حقِ ملکیت دیا جائے۔نجکاری کو روکا جائے اور منصوبہ بند صنعت سازی کی جا ئے تاکہ بے روزگار محنت کشوں کو روزگار ملے اور روز گار کرنے والوں کو معقول تنخواہ۔

                ہم صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کسان کو صنعتی مزدور کے برابر حقوق دئیے جائیں۔ معیشت کا غیر رسمی شعبہ جس میں مزدور عورت اور دہقان عورت کی اکثریت ہے، اس شعبہ پر مزدور قوانین کا اطلاق کیا  جائے۔ برابرکے کام کی برابر اُجرت، بیگار اور جبری مشقت پر پابندی، کنٹریکٹ ملازمت کی مستقل ملازمت میں تبدیلی،، کھیت مزدور کو صنعتی مزدور کے مساوی حقوق اور مراعات اور تمام ملازمتیں عورتوں کے لیے کھولنے کا مطا لبہ کرتے ہیں۔کھیت مزدور و مزارعین کو بطور مزدور رجسٹر کیا جائے اور مقرر کردہ کم سے کم اُجرت اور تمام مراعات دی جائیں۔ہم تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش کوریاست کی ذمہ د اری مانتے ہیں اور ان کی نجکاری کے لیے جاری قانون سازی اور پالیسی سازی کو فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔  اِن شعبوں میں تمام کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے،اور تمام واجبات ادا کئے جائیں۔ ہم شہری مضافات میں محنت کشوں کی کچی بستیاں ڈھانے کے حکومتی فیصلوں کی مذمت کرتے ہیں۔ موجودہ بستیوں کو ریگولرائز کیا جائے، محنت کشوں کے لئے شہروں میں سستے مکانات، لیبر کالونیاں اور چائلڈ کئیر سنٹرز تعمیر کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔

                  ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ ترقی پسند عورتوں کی ایک سوشلسٹ فیمینسٹ مزاحمتی تحریک ہے، جو پاکستان کی محنت کش خواتین (جو کہ جسمانی محنت کرتی ہیں) اور محنت کار خواتین(جو ذہنی محنت کرتی ہیں) کو منظم کر نے کا عزم رکھتی ہے۔ ہم پدر شاہی نظام (عورتوں پر مرد کی بالا دستی کا نظام) اور اسکی بنیادوں بشمولِ طبقاتی استحصال، سرمایہ دارانہ/ جاگیردارانہ معیشت، قومی جبر و ناہموار ترقی، عورتوں کی ترقی کی سامراجی و قدامت پرست ریاستی پالیسیاں، اورمذہبی انتہا پسندی سے عورت کی آزادی اورصنفی انقلاب تک جدو جہد کا منشور رکھتے ہیں۔ ہم موجودہ نظام کے ثمرات و حقوق عورت تک پہنچانے کے لیے بھی آواز اٹھاتے رہیں گے۔ اور اِستحصال اورجبر کی ہر شکل کے خل