عورت آزادی جلسہ: مشترکہ قرارداد

(اِسلام آباد، 6 مارچ 2022)

عورت آزادی مارچ (اسلام آباد) -ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ – ویمنز ایکشن فورم (اسلام آباد) – سندھی عورت تنظیم – پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن – ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ – عوامی ورکرز پارٹی -نیشنل پارٹی – پاکستان مزدور محاذ- کمیو نسٹ پارٹی آف پاکستان – پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین – مزدور کسان پارٹی – پاکستان انقلابی پارٹی- محنت کش تحریک – جموں کشمیر عوامی ورکرز پارٹی- لیڈی ہیلتھ ورکرز یونین – پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس – کچی آبادیز الائنس – پروگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن – لال ہڑتال

ہم نظریاتی طور پر عورت پر جبر اور استحصال کو پاکستان کے عوام کے استحصال کا لازمی عنصر سمجھتے ہیں اور پدر شاہانہ، طبقاتی، اور قومی استحصال و جبر کو سرمایہ داری نظام کی بنیادی استحصالی اِکائیاں سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کی آزادی کا سوال نہ صرف اِن استحصالی ڈھانچوں سے تہہ در تہہ جُڑا ہوا ہے، بلکہ یہ ڈھانچے اپنی بقاء کے لئے ایک دوسرے سے توانائی بھی لیتے ہیں۔ ہم اِن سب ڈھانچوں کو مشترکہ جدوجہد کے ذریعے توڑنے کا عزم کرتے ہیں۔ عورت کی ہر طرح کے اِستحصال، جبر اور امتیاز سے آزادی، جنسی بربریت کے خاتمے، صنفی مساوات اور ترقی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی

یہ جلسہ پاکستان میں عورتوں پر تشدد کے ثقافت پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس ثقافت کی جڑیں جاگیرداری، سرمایہ داری، سامراجیت، مذہبی انتہا پسندی، اور جنگی معیشت میں ہیں، جن کا خاتمہ پدر شاہانہ تشدد کی ثقافت کے خاتمے کے لئے ضروری ہے۔ یہ جلسہ ان تمام سماجی، سیاسی اور ریاستی قاعدوں اور ڈھانچوں کو رد کرتا ہے جو کہ پدر شاہی کے حامی ہیں، جن کی آڑ میں عورتوں، بچوں، جنسی اقلیتوں خاص طور پر خواجہ سراؤں کو چُن چُن کر منظم بربریت، صنفی امتیاز اور ہراسانی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اِس جنونی پدر شاہی کو گرانے کے لئے ایک بڑی سیاسی قوت کی ضرورت ہے، جس کی تشکیل فیمنسٹ تحریک انتہائی مشکل حالات میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر اُسے بھی منظم جارحیت کا سامنا ہے، اور چُن چُن کر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ہم فیمنسٹ تحریک پر جاری منظم حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست مذہبی انتہا پسندی سے مزاحمتی تحریکوں کو کُچلنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے۔ اِس جلسے کے مزید مطالبات درجِ ذیل ہیں۔

شہر اور دیہات سب کے لئے

لینڈ ریفارمز بشمولِ زرعی و شہری زمین اور قدر تی وسائل کی منصفانہ تقسیم، تمام بڑی سول اور ملٹری ملکیتوں کو ریاستی ملکیت میں لے کر بے زمین کاشتکاروں /بے گھر خاندانوں میں تقسیم کیا جائے۔ عورتوں کو مساوی حصہ اور وراثت دی جائے۔ ماحولیات اور حیاتیات کا تحفظ کیا جائے۔

حکومت اور لینڈ مافیا کی جانب سے بستیوں اور کچی آبادیوں میں جاری جبری بیدخلیوں کا خاتمہ، غریب خاندانوں میں شہری زمین کی منصفانہ تقسیم، اور تمام کچی آبادیوں کی ریگولرائزیشن اور یہاں رہائش پذیر خاندانوں کو مالکانہ حقوق دیئے جائیں۔

اسلام آبادـ’ ٹنتھ ایونیو ‘ کا رُخ موڑا جائے، تاکہ ایچ نائن کچی آبادی کو مسماری سے بچایا جائے۔

دیہاتوں اور شہری آبادیوں میں بنیادی ضروریات زندگی بشمول تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی اور نکاسی کا انتظام، اور بجلی و گیس کی فراہمی کی جائے، اور شہروں کو چلانے والے محنت کش خاندانوں کے لئے لیبر کالونیوں کی تعمیر کی جائے۔

مذہبی اقلیتوں کو برابر کے انسانی اور مذہبی حقوق، اور جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔ لڑکیوں کی جبری تبدیلیِ مذہب کا خاتمہ کیا جا ئے۔

اِسلام آباد میں گھریلو ملازمین کے تحفظ اور کم از کم اجُرت کیلئے قانون سازی، اور ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2021کی فوری منظوری دی جائے۔

پاکستان میں بڑے پیمانے پرجاری خواتین، نابالغ بچوں، خواجہ سراوں اور صنفِ آزاد کے خلاف جنسی جرائم و ہراسانی کے وبا کا خاتمہ کیا جائے، خاص طور پر تعلیمی اداروں، مدرسوں، کام کی جگہ اور دوسرے عوامی مقامات پر۔ تمام دفاتر اور تعلیمی اداروں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنائی جائیں۔

تعلیم، علاج اور روزگار سب کے لئے

ہم پدرشاہانہ، طبقاتی، قومی، اور ثقافتی امتیاز اور جبر و استحصال پر مبنی تعلیم، صحت اور روزگار کے نظام کو رد کرتے ہیں، اور اسے صنفی، سماجی، قومی، اور ثقافتی انصاف کے اصولوں پر اُستوار کرنے کے لئے درج زیل فوری مطالبات رکھتے ہیں:۔

مہنگائی لانے والے آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسیاں بشمول نجکاری، کانٹریکٹ لیبر، گیس اور بجلی کے مہنگے بلوں والی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ روزگار کی ضمانت دی جائے، ا ور بنیادی اشیائے زندگی کی قیمتوں میں فوری کمی کی جائے۔

مُلک میں ” تعلیمی اور صحت عامہ ایمرجنسی “کا نفاذ کیا جائے، تعلیم اور علاج مفت اور عام کی جائیں۔ غیر پیداواری خرچے کاٹ کر مُلکی آمدن کا کم از کم 10 فیصد تعلیم اور 10 فیصد صحت عامہ کیلئے مختص کیا جائے، تاکہ کروڑوں غریب محنت کش خاندانوں کے بچے پڑھ سکیں، خاص طور پر لڑکیاں۔

تمام صوبائی اور فیڈرل لیول تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں میں پرائیوٹائزیشن اور کانٹریکٹ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے، اور تمام اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو مستقل کیا جائے، اور انہیں مناسب سروس سٹرکچر اور اپ گریڈیشن دی جائے۔

کم سے کم اُجرت کی آئینی ضمانت دی جائے۔ اُجرت میں صنفی امتیاز ختم کیاجائے۔ غیر رسمی شعبوں میں عورت مزدور کی اکثریت ہے، ان غیر رسمی شعبوں کو باقاعدہ لیبر لاء کے اندر لایا جائے۔

تمام بڑے سرکاری اداروں میں رہائش اورہوسٹل تعمیر کئے جائیں۔ہوسٹل نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کو شدید مالی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے۔ گرلز ہوسٹلز میں کرفیو کا خاتمہ کیا جائے۔ ضلعی سطح پر خواجہ سراؤں کے لئے فوری طور پر کراسس سنٹر کھولے جائیں جائیں۔

نصاب کے ذریعے پدرشاہانہ، طبقاتی اور قومی جبر، اور مذہبی منافرت پر مبنی نظریات کے پرچار اور زہن سازی کا خاتمہ کیا جائے، اور نصاب کو ہر طرح کی منافرت سے صاف کیا جائے۔ واحد نصاب (سنگل نیشنل کریکولا) کا خاتمہ کیا جائے، اور قومی اکایوں کا حق تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق نا نصاب بنائیں۔ مادری زبان کو لازمی مضمون کا درجہ دیا جائے، اور نصاب کو جدید سائنسی، سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر استوار کیا جائے۔

طلبہ یونین بحال کریں۔سیاسی نظریات اور قومی شناخت کی بنیاد پر طلبہ پر ڈھائے جانے والے مظالم اور جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں غیر متعلقہ ریاستی اداروں بشمول باوردی اور سویلین اداروں کی مداخلت ا ور سرویلنس کے خاتمہ کیا جائے۔

:جمہوری حقوق سب کے لئے

کروڑوں عورتوں کے ووٹ اور شناختی کارڈز نہیں ہیں، انکی رجسٹریشن کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں میں عورتوں کی کم از 33 فیصد نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ فیمنسٹ تحریک اور دوسرے مزاحمتی تحریکوں کے حقِ اظہار، سیاست اور اسمبلی کو تسلیم کیا جائے۔ اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں ختم کی جائیں اور صحافیوں پر حملے، اور خواتین صحافیوں کی ہراسانی بند کی جائے۔

سویلین ڈیموکریسی اور سیکولر ریاست کا قیام کیا جائے۔ تمام جمہوری اور بنیادی حقوق کی عملی ضمانت دی جائے۔ قومی تحریکوں کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے بجائے قومی سوال کا سیاسی حل کیا جائے۔سامراجیت کی ہر شکل کا خاتمہ کیا جائے۔ عوام کی آزادانہ منتخب پارلیمان کی بالادستی، زمین ساحل ااور وسائل کی از سر نو تقسیم، اور اجتماعی مفادعامہ کی بنیاد پر حقِ حکمرانی، جمہوری اور سول آزادیوں کی بحالی کو تسلیم کیا جائے۔

عورت آزاد – سماج آزاد