معیشت، سیلاب متاثرین اور امن بحال کرو

اعلامیہ ‘عورت آزادی جلسہ’ 5مارچ 2023 ، اِسلام آباد

(اسلام آباد 3 مارچ 2023): ہم ایک ایسے وقت میں محنت کش عورتوں کا 113 واں عالمی دن منا رہے ہیں، جب ہمارا ملک مالیاتی سامراجیت کی وجہ سے معاشی بُحران اور تباہی کے دہانے پر ہے اور تباہ کن سیلاب کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہیں اور انہیں بھوک، بیماریوں کا سامنا ہے۔ جب انتہاپسند پدرشاہانہ نظام اور تشدد کی وحشیانہ شکلیں ریاست اور معاشرے میں گہری جڑیں قائم کر چکی ہیں۔ اور جب افغانستان میں چار دہائیوں کی پراکسی جنگ کے بعد دوسری سرد جنگ شروع ہو چُکی ہے جس کے پاکستان کے لیے تباہ کن سماجی و اقتصادی اثرات سامنے آچکے ہیں۔

اس وقت عوام ٹیکسوں اور قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے مہنگائی کے طوفان میں گِھر چُکے ہیں۔ ڈالر کی قلت اور تجارتی خسارے کے باعث حکومت آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان چُکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے سامراجی قرضے اور حد درجہ فوجی اخراجات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ان کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ فوجی اخراجات میں اضافہ مزید قرضوں کا باعث ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف ریاست بجٹ کٹوتیاں کر رہی ہے اور عوامی فلاح وبہبود سے دستبردار اور بری الذمہ ہو گئی ہے، بلکہ موسمیاتی آفات کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی بحالی پر بھی کٹوتیاں کر رہی ہے۔

اِن بُحرانوں کی آپسی جڑی ہوئی اورباہمی پیوست نوعیت، اور خواتین، محکوم اقوام، مظلوم مذاہب کے لوگوں، خواجہ سرا، اور سب سے بڑھ کر محنت کش طبقے کو درپیش طویل جبر اور استحصال کی مختلف شکلوں کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم سمجھتے ہیں کہ پورے کے پورے نظام کے بنیادوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ان بحرانوں سے نکلنے کے لئے ترقی پسند ایجنڈے سے کم کچھ بھی کام نہیں کرے گا، جسمیں کم از کم یہ نکات شامل ہوں: ترقی پسند صنفی ایجنڈ؛،معیشت اور ریاست پر سامراج اور فوج کی بالادستی کا خاتمہ؛ ایک سیکولر جمہوری ریاست اور معاشرے کا قیام؛ ٹیکس کے نظام کی ترقی پسند بنیادوں پر تشکیل؛ شہری اور زرعی زمین کی ملکیت اور استعمال میں اصلاحات؛ ایک رضاکارانہ وفاق کی تشکیل جو تمام اقوام کی حق خود ارادیت کی ضمانت دیتا ہو؛ نجکاری اور اشرافیہ کو سبسڈی کا خاتمہ؛ مفت صحت اور تعلیم سب کے لئے؛ ریاستی جبر، قومی جبر، اور بلوچ اور پشتون قوموں کی نسل کشی (جینو سائیڈ)کا مکمل بند کرنا۔ اور سب سے بڑھ کر سرحدات سے لے کر گھر تک امن…… گھر جو کہ اسوقت عورت پر پدر شاہانہ تشدد ور عورتوں کے قتل عام (فیمسائیڈ)کی آماجگاہ بن چکا ہے۔

ہماری جدوجہد عورتوں، محکوم قوموں، محنت کش طبقہ، اقلیتوں، اور خواجہ سرا برادری کی آزادی، اور سماجی مساوات پر مبنی ریاست اور معاشرے کے قیام تک جاری رہے گی۔ ہم اپنی انقلابی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان حقوق کے حصول کے لیے بھی جدوجہد کریں گے جس کا موجودہ جمہوریت نے وعدہ کیا ہے۔ ہمارے جلسے کی یہ تین بڑی قراردادیں اور مطالبات یہ ہیں:

سیاسی معیشت کی جمہوریت سازی

ٹیکس اِصلاحات

٭ ایلیٹ گروپوں کے سالانہ17.4 بلین ڈالر کے مراعات کا خاتمہ کریں، جو کہ کارپوریٹ سیکٹر، جاگیر داروں، رئیل اسٹیٹ ڈیولپرز، سیاسی طبقہ اور فوج کو دئے جاتے ہیں۔ اس میں سبسڈی، ٹیکس بریکس، بیل آؤٹ پیکیجز، خام مال کی سستی قیمتیں اور تیار مال کی مہنگی قیمتیں، زمین و سرمایہ اور ریاستی خدمات کو فوقیتی ومراعاتی رسائی شامل ہیں۔

٭ پروگریسو ٹیکس اصلاحات لائی جائیں، اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کو کاٹاجائے، اور ڈائیریکٹ ٹیکس لگائے جائیں۔ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگایا جایا۔

٭ ٹیکس لگانے اور وصولی کے اختیارات صوبوں اور ضلعی حکومتوں کو منتقل کریں۔

٭ بجلی، گیس اور ٹیلی فون سمیت یوٹیلیٹیز پر تمام ٹیکسز اور سرچارجز ختم کریں۔

بجٹ اِصلاحات

٭ کم سے کم ماہانہ اجرت کو 50,000 روپے (کم سے کم $200 ماہانہ) کریں۔اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ینگ ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے مناسب سروس سٹرکچر فراہم کریں۔کانٹریکٹ سسٹم کا خاتمہ کریں، کم از کم پبلک سیکٹر میں۔

٭ سرمایہ دارانہ گروتھ کی مرکزیت پر مبنی بجٹ سازی اور ترقیاتی ماڈل کو ترقی پسند اور سماجی معاشی پروگریس یعنی پیش رفت اور نشوو نما کے ماڈل سے بدلہ جائے جسکا محور سرمایہ نہیں، بلکہ عوام ہو، اور مرکز نہیں بلکہ اطراف ہوں۔ اس پالیسی شفت کی تیاری کا آغاز نصاب کو طبقے، قوم، مذہب، اور صنف کی بنیاد پر بالا دست نظریات اور منافرت سے صاف کیا، اور سائنسی اور سیکولر جمہوری بنیادوں پر نصاب کا ازسر نو تعین کیا جائے۔ ‘ سنگل نیشنل کریکولا ‘ کو ختم کر کے تعلیم کے سبجیکٹ کو مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دیا جائے۔ طلبہ یونین بحال کریں۔

٭ مفت علاج، تعلیم، اور رہائش سب کے لیے پر عوامی اخراجات بڑھانے کے لیے فوجی اخراجات کاٹے جائیں۔

٭ نجکاری کا خاتمہ کیا جائے۔ نجی شعبے کو عوامی دولت اور وسائل کی منتقلی ختم کریں۔

لینڈ ریفارمز

٭ شہری اور فوجی ملکیت میں تمام بڑے سائز کی شہری اور زرعی اراضی کی ملکیتوں کو نیشنلائز کریں، اور بے زمین خاندانوں میں از سر نو تقسیم کریں۔ شہری مکانات کی ملکیت کی حد 1 کینال پر اور زرعی اراضی کی ملکیت کو کو خاندان کے دانہ پانی ضرورت یعنی گزارے کی سطح پر طے کریں۔

٭ موجودہ شہری مراکز میں ایلیٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر پر پابندی لگائیں، اس کے بجائے نئے منصوبہ بند شہر قائم کریں جہاں سوک سروسز اور لیبر کالونیوں کے لیے کم از کم 33 فیصد رقبہ مخصوص کریں۔

٭ مزدوروں کے لئے تمام میٹروپولیٹن شہروں میں لیبر کالونیاں تعمیر کریں۔

٭ زرعی اراضی پر ریئل اسٹیٹ کی تجاوزات کا خاتمہ کریں، اور کچی آبادیوں اور بستیوں سے جبری بے دخلیاں بند کریں۔

٭ کچی آبادیاں، بستیاں اور گوٹھوں کو ریگولرائز کریں، اور مکینوں کو مالکانہ حقوق اور تمام شہری بنیادی سہولیات فراہم کریں۔

٭ رائلٹی کا نظام ختم کر کے صوبوں کو ان کے سونے، تانبے، یورینیم، تیل اور گیس کی کانیں واپس کر دیں۔ پانی کے ذخائر؛ ساحل اور بندرگاہیں کو بھی لوٹائیں۔

تجارتی اصلاحات

٭ افغانستان میں امن اور جمہوریت کے قیام کی حمایت کریں اور تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تجارتی اور سفارتی تعلقات استوار کریں۔

٭ تجارتی خسارے کو کم کرنے اور ملکی صنعتی سازی کو ترغیب دینے کے لیے زیادہ درآمدی ٹیکس کے بجائے لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی لگائیں۔

٭ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے ایران سے تیل کی خریداری پر امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے تجارتی پابندیوں اور سینکشن کو مسترد کریں۔

سیلاب متاثرین کی بحالی

۔ * وفاقی حکومت سیلاب سے متاثرہ صوبوں کو تباہ شدہ مکانات، کسانوں کے زرعی کھیتوں اور ان کے ذریعہ معاش کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے وسائل فراہم کرے۔ جاگیرداروں کوسبسڈی ختم کریں۔

٭ حاملہ خواتین کو صحت کی دیکھ بھال اور معاش کی بحالی میں خصوصی مدد فراہم کی جائے۔ تمام بے گھر افراد کو فوڈ سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

٭ دریا کے انتظام کے نوآبادیاتی ماڈل، ریاست کی جانب سے شدید لاپرواہی، اور لوگوں کی مستقل بے دخلی اور ان کی زمینوں پر قبضے کو ختم کریں۔

٭ دریاؤں، قدرتی ندیوں، نالہ اور کھاڑیوں پر کارپوریٹ تجاوزات کا صفایا کریں۔

٭ سیاسی اور مالیاتی اختیارات وفاق سے صوبائی اور مقامی حکومتوں کو منتقل کریں تاکہ انہیں آفات سے بہتر طریقے سے نمٹنے کے لیے بااختیار بنایا جا سکے۔

گھر سے سرحدات تک امن کی بحالی

پراکسی جنگوں کا خاتمہ

٭ پراکسی جنگوں میں ریاست کی شمولیت اور حصہ داری ختم کریں۔ اس نے ہماری ریاست اور معاشرے میں پدرشا ہی کی از حد بڑھوتری، عسکریت پسندی، اور بنیاد پرستی کی بے حد بڑھوتری کے لیے ایک قدرتی مسکن فراہم کیا ہے۔

ملٹری آپریشنز کی پالیسی اور ریاستی جبر کا خاتمہ

٭ ریاست کی طرف سے محکوم قوموں پر جنگ کا خاتمہ، اور بلوچستان، پختونخوا اور سندھ میں پراکسی گروپوں کے ذرریعے ٹارگٹ کلنگ اور فوجی آپریشن کا خاتمہ کریں۔ سیاسی حل اور’ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن’ قومی سوال کے حل کا رستہ ہے۔

٭ جبری گمشدگیوں کا خاتمہ، خاص طور پر بلوچ خواتین کی؛ اور جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے سے متعلق قانون سازی۔

٭ دہشت گردی اور مذہبی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ اور بارودی سرنگوں کو صاف کریں۔ آپریشنز کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو دوبارہ آباد کریں۔

ریاست اور معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ

٭ ریاست کے تمام پہلووں، نظام تعلیم، اور سماجی ثقافتوں میں انتہا پسندی کا خاتمہ کریں۔

٭ ریاست کی طرف سے ایک اسٹریٹجک اثاثہ کے طور پر انتہا پسند پدرانہ نظام کی پرورش اور جنگی استعمال پر مکمل روک لگائی جائے۔ اس پالیسی کی وجہ سے خواتین اور خواجہ سرا کی حیثیت میں مزید تنزلی ہوئی ہے اور خواتین کی قتل عام میں اضافہ ہوا ہے،نجی اور عوامی زندگی کے دونوں پہلووں میں۔

٭ شیعہ اور احمدی فرقے کی ٹارگٹ کلنگ اور ہندو اور میسحی لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور اغوا کاروں سے جبری شادیوں پر مکمل روک لگائی جائے۔

ہم تمام فیمنسٹ، سوشلسٹ، قوم پرست اور سیکولر جمہوری قوتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یکجہتی پیدا کریں اور عوام، خواتین، محکوم اقوام، خواجہ سرا، اور مظلوم مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کی آزادی کے لیے مذکورہ بالا کم از کم ایجنڈے کے گرد متحد ہوں۔

سب کی آزادی کے بغیر کوئی آزادی نہیں ہوتی، کہ کسی اور کی قیمت پر آزادی اور دوسرے پر قبضہ کرنا کوئی آزادی نہیں ہے۔ یا ہم سب اکھٹے آزاد ہونگے، یا کوئی بھی نہیں!

سامراجیت، ملٹرائزیشن، اور بنیاد پرستی کا خاتمہ؛ اور عوامی جمہوریت کا قیام

#amaninsafzindagi

ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور عورت آزادی مارچ

ایف نائن پارک، اسلام اباد 5 مارچ 2023